جہاد: فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کا تصور
9/15/20251 min read
جہاد کا عمومی تعارف
جہاد ایک عربی لفظ ہے جس کا بنیادی معنی "کوشش" یا "محنت" ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات میں ایک اہم تصور ہے، جو کہ مختلف اقسام میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ جہاد کی بنیادی تعریف اس کوشش پر مبنی ہے جو کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کی جاتی ہے، خاص طور پر دین اسلام کے اصولوں کے مطابق۔ جہاد کا خواب سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے مختلف پہلوؤں کو جانیں، جیسے کہ فوجی جہاد، علمی جہاد، اور روحانی جہاد۔
فوجی جہاد وہ پہلو ہے جس کے ذریعے ایک مسلمان کمیونٹی یا ملک اپنی خودمختاری اور سلامتی کی حفاظت کے لیے لڑتا ہے۔ یہ جہاد اسلامی ریاست کی جانب سے مسلح مدافعت کا حق رکھتا ہے، اور اس کا مقصد صرف فتح حاصل کرنا نہیں بلکہ امن اور انصاف کی بحالی بھی ہوتا ہے۔
علمی جہاد دوسرے پہلو پر روحانی اور علمی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں علم حاصل کرنے کی کوشش، دین کی صحیح تشریح، اور معاشرے کی بہتری کے لیے تعلیم و تربیت شامل ہیں۔ یہ جہاد دل و دماغ کی جنگ ہے، جہاں کسی فرد کو اپنے اعتقادات کی وضاحت کرنے اور دوسروں کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
روحانی جہاد کا مفہوم اپنی ذات کے خلاف جدو جہد کرنا ہے۔ یہ اس شخص کی کوشش ہوتی ہے جو اپنی روحانی حالت کو بہتر بنانے اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح کے جہاد میں صبر، تحمل، اور خود احتسابی جیسے عناصر شامل ہیں، جو کہ انسانی شخصیت کی مضبوطی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
یوں، جہاد کا تصور ایک وسیع اور گہرائی میں جانے والا مسئلہ ہے، جو کہ اسلامی تاریخ اور روایات میں مختلف طریقوں سے طے پایا ہے۔ اس کے مختلف اشکال کو سمجھنے سے ہمیں ایک جامع نظر ملتی ہے کہ جہاد کی روح کیا ہے اور یہ کسی بھی مسلمان کی زندگی میں کس طرح کی اہمیت رکھتا ہے۔
فرضِ عین کا مفہوم
اسلام میں 'فرضِ عین' ایسے اعمال کی نشاندہی کرتا ہے جو ہر مسلمان کے لیے واجب ہیں۔ یہ ایسے فرائض ہیں جن کی ادائیگی انفرادی طور پر ہر ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکات دینا، اور دین کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنا شامل ہیں۔ ان فرائض کی عدم ادائیگی کی صورت میں مسلمان گناہگار شمار کیا جاتا ہے۔ 'فرضِ عین' کے تحت آنے والے اعمال کی خصوصیات میں واضح اہمیت، والتزام، اور انفرادی ذمہ داری شامل ہیں۔
جہاد بھی ایک ایسی عبادت ہے جسے بعض مخصوص حالات میں 'فرضِ عین' کی حیثیت دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ عام طور پر جہاد کو 'فرضِ کفایہ' کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن ایسے مواقع پر جب اسلامی حدود یا مسلمانوں کی جان و مال کو خطرہ درپیش ہو، جہاد انفرادی طور پر ہر مسلمان پر فرض ہو سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب امت مسلمہ کی حفاظت اور بقاء کے لیے ایثار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جہاد کا یہ پہلو ان کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ اس کے ایجاب کی صورت میں، جہاد کا اعلان اور خود کو میدان جنگ میں پیش کرنا لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق دفاع کے لیے تیار ہو۔ ایسی صورت حال میں 'فرضِ عین' کی اہمیت اور دین کی حفاظت کے لیے درکار جدوجہد کی نوعیت کو واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے۔
فرضِ کفایہ کا مفہوم
اسلامی فقہ میں فرضِ کفایہ ایک اہم اصطلاح ہے، جو ان واجبات کو بیان کرتی ہے جو کسی جماعت یا معاشرے پر واجب ہیں لیکن ان کی ادائیگی کا دارومدار اجتماعیت پر ہوتا ہے۔ فرضِ کفایہ کے تحت، اگر کوئی تعداد میں لوگ اس واجب کو انجام دیتے ہیں، تو باقی افراد پر اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال میں جہاد کا تصور شامل ہے، جہاں ایک جماعت کی طرف سے عملی شرکت باقی افراد کو ذمہ داری سے بری کر دیتی ہے۔
فرضِ کفایہ کے مختلف نوعیتیں ہو سکتی ہیں جیسے کہ علم کی طلب، علاج کی فراہمی، یا عالمی مسائل کی طرف توجہ دینا۔ ان تمام میں یہ بنیادی اصول ہے کہ اگر کچھ لوگ ان بنیادی امور میں لگے ہوئے ہیں تو باقی لوگوں کی طرف سے ان امور کی انجام دہی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی مشترکہ ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو کہ اسلامی معاشرت کی ایک خوبصورت خصوصیت ہے۔
جہاد کی صورت میں فرضِ کفایہ کا این ظہری تصور سامنے آتا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو ہمیں ایسے بہت سے واقعات نظر آتے ہیں جہاں مسلمانوں نے اپنی سرزمین کی حفاظت اور دین کی تبلیغ کے لئے جہاد کی شکل اختیار کی۔ اس کے تحت، اگر کچھ لوگ جہاد میں حصہ لیتے ہیں، تو یہ کہنا درست ہے کہ وہ باقی معاشرت سے اس فرض کو پورا کر رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں دیگر افراد کی ذمہ داری کم ہو جاتی ہے۔ اس طرح فرضِ کفایہ کا بنیادی تصور ہمیں جماعتی روح کی اہمیت کو سمجھاتا ہے اور اس میں اسلامی معاشرت کے اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔
فرضِ عین اور فرضِ کفایہ میں فرق
اسلامی فقہ میں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کے تصورات ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف ہیں، جو ہر ایک کے عمل اور ذمہ داریوں کو متاثر کرتے ہیں۔ فرضِ عین، جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے، وہ عمل یا ذمہ داری ہے جو ہر مسلمان پر انفرادی طور پر ادا کرنا لازم ہے۔ یہ ایسے احکامات ہیں جن کی عدم تعمیل کی صورت میں فرد کی ذمہ داری اور گناہ کا بوجھ بڑھتا ہے۔ مثلاً، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور زکوة دینا جیسی عبادات فرضِ عین میں شامل ہیں۔ جہاد کے معاملے میں، یہ اس وقت فرضِ عین بن جاتا ہے جب مسلمانوں پر کسی مخصوص خطرے کا سامنا ہو، جیسے کی جنگ کی حالت میں شریک ہونا یا اپنے دین کی حفاظت کرنا۔
دوسری جانب، فرضِ کفایہ ایسی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی میں کسی بھی مسلمان کی شرکت کافی ہوتی ہے، اور اگر کچھ لوگ یہ ذمہ داری نبھائیں تو باقی افراد سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے۔ اس نوع کی عبادات میں جہاد بھی شامل ہو سکتا ہے، لیکن اس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کوئی عام مسئلہ یا خطرہ مخصوص جماعت یا ملک کے لیے پیدا ہو۔ یعنی اگر ایک ملک یا کمیونٹی کی حفاظت کے لیے جہاد کا اعلان کیا جائے تو سب پر شریک ہونا واجب نہیں، بلکہ کچھ افراد کی شرکت ہی اس ذمہ داری کو پورا کر دیتی ہے۔
یہ فرق مسلمانوں کے لیے روحانی اور عملی سطح پر اہمیت رکھتا ہے۔ فرضِ عین کی حالت میں تعاون اور انفرادی ذمہ داری کا احساس بڑھتا ہے جبکہ فرضِ کفایہ میں اجتماعی ذمہ داری اور مظاہرہ کی اہمیت ہوتی ہے، خصوصاً جب کسی مخصوص صورتحال میں تعاون کرنا پیش نظر ہو۔ اس طرح دونوں اقسام کے فرضوں کی نوعیت اور فرضی نشان دہی اسلامی معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جہاد کی مختلف اقسام
جہاد کا تصور اسلامی تعلیمات میں بہت گہرائی اور وسعت رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر، جہاد کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ عسکری جہاد، نفسی جہاد، اور علمی جہاد۔ ہر قسم کا جہاد اپنے مخصوص اہداف اور طریقہ کار کے ساتھ مسلح ہے، اور ان کی اہمیت مختلف مواقع پر مختلف ہو سکتی ہے۔
عسکری جہاد کا مقصد دشمن کے خلاف جسمانی طور پر لڑنا ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر فرضِ عین کے زمرے میں آتا ہے، خصوصاً جب کسی اجتماعی یا قومی تحفظ کی ضرورت ہو۔ اسلامی تاریخ میں کئی ایسے مواقع ملتے ہیں جب مسلمانان نے عسکری جہاد کے ذریعے اپنی سرزمین اور عقائد کی حفاظت کی۔
نفسی جہاد، جسے خود کی اندرونی جنگ بھی کہا جا سکتا ہے، کا مقصد انسان کی اندرونی نفسیاتی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ یہ جہاد کسی فرد کی خود کو مرنے کے لیے تیار کرنا، اپنی خواہشات پر قابو پانا، اور اخلاقیات کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا شامل ہے۔ اس قسم کا جہاد فرضِ کفایہ میں آتا ہے، کیونکہ اگر ایک فرد اس جہاد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے۔
علمی جہاد کا مقصد دین کی تعلیمات کو پھیلانا اور اس کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ یہ جہاد مختلف علمی سرگرمیوں، جیسا کہ تدریس، تحقیق، اور ادبی فعالیت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ علمی جہاد بھی اکثر فرضِ کفایہ کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ اس سے سماج کی بہتری اور اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔
ان اقسام کے ذریعے جہاد کا مقصد صرف جنگ یا دفاع نہیں بلکہ فرد اور معاشرے کی تعمیر و ترقی بھی ہوتی ہے۔ ہر قسم کے جہاد کا خاص مقام ہے اور یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔
پیغام جہاد: معاشرتی اثرات
جہاد کا تصور مسلمانوں کی زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، جس کے پیچھے عزم، حوصلہ اور ایثار کے مفاہیم موجود ہیں۔ جب ہم جہاد کے پیغام کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے سماجی اثرات کثیر الجہتی ہیں۔ جہاد کا صحیح مفہوم لوگوں کو متحرک کرتا ہے اور موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ یہ افراد کو اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے، چاہے وہ معیشت کے میدان میں ہو یا سماجی بہبود میں۔
معاشرتی اعتبار سے، جہاد کے پیغام سے جو عزت و احترام اور بھائی چارے کی فضاء پروان چڑھتی ہے، وہ نہ صرف افراد کی ذاتی زندگی بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی بہتری کا باعث بنتی ہے۔ جہاد کو صرف جنگ کے معنی میں نہیں لیا جانا چاہیے، بلکہ یہ ایک ایسے راستے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں فرد اپنی قابلیتوں کو بہتر بنانے اور دوسروں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے ایک نسل کی تربیت میں مدد ملتی ہے جو یا تو اپنی ثقافتی ورثہ کو سمجھے گی یا ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار ہوگی۔
مزید برآں، جہاد کا پیغام نوجوانوں میں عزم و ہمت کو اُبھارتا ہے، اور انہیں ایک ایسا مقصد فراہم کرتا ہے جس کے لئے وہ جدوجہد کریں۔ جہاد کے نجی اور اجتماعی اثرات کے ذریعے، ایک صحت مند معاشرت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، اور یہ یقیناً ایک مثبت تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ جہاد کے ذاتی اور اجتماعی اثرات پر غور کیا جائے، تاکہ معاشرہ اپنی کمزوریوں کو ختم کر کے ایک مضبوط بنیاد پر کھڑا ہو سکے۔
نتیجہ: جہاد کی اہمیت
جہاد کا تصور اسلامی معاشرت میں ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو صرف جنگ و جدل کی بات نہیں کرتی بلکہ اس کے معنی میں خود کو بہتر بنانا، معاشرتی انصاف قائم کرنا، اور دین کی خاطر کوشش کرنا بھی شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق جہاد کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: فرضِ عین اور فرضِ کفایہ۔ فرضِ عین کا مطلب ہے وہ جہاد جو ہر مسلمان پر انفرادی طور پر فرض ہے، جبکہ فرضِ کفایہ ایسی کوششیں ہیں جو کسی مجموعی جماعت پر لازم ہیں، لیکن اگر کچھ لوگ ان کی انجام دہی کر لیں تو سب کی طرف سے ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔
جہاد کی روح کا صحیح مفہوم سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کسی صوبائی یا قومی خودمختاری کے لیے نہیں بلکہ ایک اعلیٰ اسلامی مقصد کے لیے جنگ اور کوشش کا نام ہے۔ جہاد کی روح انسان کی ہر قسم کی تہذیبی، سیاسی اور سماجی اصلاح کی کوشش ہے۔ یہ ایمان کے تحفظ، حق و انصاف کے قیام، اور مظلوم کی مدد کے لیے لازمی ہے۔ جہاد کا یہ تصور مسلمانوں کو نہ صرف ایک قوم کے طور پر باندھتا ہے بلکہ ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی بیدار کرتا ہے۔
اسلامی معاشرت میں جہاد کی اہمیت انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بہت سی جہتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ایک مقصد کے لیے متحرک کرتا ہے اور انہیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح، جہاد کا صحیح مفہوم اور اس کی روح کی گہرائی سے سمجھنا نہ صرف اسلامی تعلیمات کی اصل روشنی فراہم کرتا ہے بلکہ ایک بہتر معاشرتی ڈھانچہ بھی تشکیل دیتا ہے۔