BISMILLA HIRRAHEMA NIRRAHEEM
آج کے دور میں جہاد: فرض عین یا فرض کفایہ؟
11/20/20251 min read
جہاد کا مفہوم
جہاد ایک عربی لفظ ہے جس کا لغوی مطلب 'کوشش' یا 'محنت' ہے۔ تاہم، اصطلاحی طور پر یہ لفظ مسلمانوں کی ذمہ داریوں، خاص طور پر دین کی خاطر جدوجہد کرنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جن میں جہاد بالنفس، جہاد باللسان، اور جہاد بالسیف شامل ہیں۔ جہاد بالنفس کا مطلب ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات اور کمزوریوں سے لڑے، جبکہ جہاد باللسان میں علم اور خطابت کے ذریعے حق بات کا دفاع کرنا شامل ہے۔ جو لوگ اپنے موقف کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کے لیے زبان کا استعمال کرتے ہیں، وہ اس جہاد میں مشغول ہوتے ہیں۔ آخر میں، جہاد بالسیف سے مراد جسمانی طاقت کا استعمال ہے، جس میں دشمنوں سے لڑنا شامل ہوتا ہے۔ یہ جہاد خاص طور پر دفاعی یا اسلامی ریاست کے تحفظ کے لئے کیا جاتا ہے، تاکہ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کی جا سکے۔
جہاد کی تاریخی پس منظر میں، ابتدائی دور اسلام میں یہ ایک نہایت اہم مفہوم تھا۔ جب پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت دین کا آغاز کیا، تو انہیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی مسلمان معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے دباؤ کا شکار تھے، جس کی وجہ سے جہاد کا تصور ایک حیات افروز اور ضروری عمل بن گیا۔ اس دور میں جہاد صرف ایک دفاعی عمل نہیں تھا بلکہ ایک مقدس فریضہ تھا جس کے ذریعے دین اور اس کے پیروکاروں کی حفاظت کی گئی۔ اس تناظر میں جہاد کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ اسلامی تاریخ کے متعدد پہلوؤں میں نمایاں طور پر منفی اور مثبت دونوں اثرات چھوڑتا ہے۔
فرض عین اور فرض کفایہ کی وضاحت
اسلامی فقہ میں دین کی عبادات اور اعمال کے حوالے سے دو اہم اقسام ہیں: فرض عین اور فرض کفایہ۔ فرض عین وہ امور ہیں جو ہر بالغ مسلمان پر بلا استثنا واجب ہیں، جبکہ فرض کفایہ وہ امور ہیں جن کی ادائیگی کچھ افراد کے ذریعے ہو جانے کے بعد باقی لوگوں پر ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔
فرض عین کی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ یہ عبادات ہر مسلم کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ نماز، روزہ، زکات اور حج جیسے فریضے ایسے ہیں جن کی ادائیگی ہر بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو" (البقرہ: 183)۔ اس آیت میں روزے کو فرض عین قرار دیا گیا ہے، جو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
اس کے برعکس، فرض کفایہ میں ایسے اعمال آتے ہیں جو مسلمانوں کے کسی گروہ کی جانب سے انجام دیے جانے پر باقی معاشرے پر سے فرضیت ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً، اسلامی جمہوریت کی تشکیل، مسلح جہاد یا ضرورت کی صورت میں مدد کرنا فرض کفایہ سمجھا جاتا ہے۔ جب ایک یا چند افراد ان فرائض کو پورا کر لیتے ہیں تو بقیہ مسلمان اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔
یہ تفریق صرف فریضوں کی نوعیت کو واضح کرنے میں مدد نہیں دیتی بلکہ مسلمانوں کے معاشرتی کردار اور فرادی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ فرض عین انفرادی عبادات کی علامت ہے جبکہ فرض کفایہ اجتماعی کوشیشوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق مسلم معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔
اہم اسلامی مصادر میں جہاد کا مقام
جہاد کی اہمیت اور مقام کو اسلامی مصادر، خاص طور پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر مختلف مواقع پر کیا گیا ہے، جہاں یہ واضح ہے کہ جہاد نہ صرف ایک دفاعی حربہ ہے بلکہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کی علامت بھی ہے۔ مثلاً، سورۃ البقرہ کی آیت 190 میں فرمایا گیا ہے: "اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔" یہ آیت جہاد کی حدود اور اس کے مقاصد کو واضح کرتی ہے، اور یہ بتاتی ہے کہ جہاد کا مقصد صرف جنگ کرنا نہیں بلکہ اصولی اور اخلاقی بنیادوں پر لڑائی ہے۔
اسی طرح، سورۃ الحج کی آیت 39 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "ان لوگوں کو اجازت دی گئی ہے جو ان کے خلاف لڑے جا رہے ہیں، کیونکہ بے شک انہیں ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔" اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاد کا ایک اہم پہلو مظلوموں کا دفاع کرنا بھی ہے۔ حدیث میں بھی جہاد کی اہمیت کو متعدد مواقع پر بیان کیا گیا ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: "سب سے بہتر جہاد اللہ کی راہ میں ایک کلمہ حق کی شہادت ہے۔" یہ حدیث جہاد کے متعدد پہلوؤں، جیسے کہ الفاظ کے ذریعے جدوجہد، کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
اسلامی فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں جہاد کی تعبیریں بھی متنوع ہیں۔ کچھ مکاتب فکر جہاد کو فرض عین سمجھتے ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ فرض کفایہ ہے۔ یہ تفریق بنیادی طور پر مختلف تفسیرات اور معاشرتی سیاق و سباق کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اس طرح، جہاد کا مقام اسلامی تعلیمات میں بہرحال نہایت اہم ہے، اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں غور و فکر ضروری ہے۔
آج کے دور میں جہاد کی ضرورت
آج کے دور میں جہاد کی ضرورت کا موضوع مختلف آراء اور تفکرات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جدید دنیا میں جہاں سیاسی، معاشرتی، اور اقتصادی چیلنجز بڑھ رہے ہیں، اس تناظر میں جہاد کی تشریح اور اس کے منطقی پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے۔ جہاد کی اصطلاح قدیم زمانے سے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کی گئی ہے، لیکن آج کل کے حالات نے اس کی ضرورت کو ایک نئے زاویے سے سامنے لایا ہے۔
دور حاضر میں، دنیا بھر میں ایک بڑی تعداد ایسے مسائل کا سامنا کر رہی ہے جن کے حل کے لیے جہاد کو مختلف طریقوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ بے روزگاری، غربت، جنگ و جدل، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایسے مسائل ہیں جن کے خلاف جدوجہد کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، اس بات پر زور دینا بھی ضروری ہے کہ جہاد صرف عسکری اقدام تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ سماجی انصاف، تعلیم، اور انسانی ترقی کو بھی شامل کرتا ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ معاشرتی ترقی میں جہاد کی ضرورت کا احساس زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیمی مسائل اور صحت کے حوالے سے بھی جہاد کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔ معاشرتی اصلاحات کے لیے کوششیں، جو کہ جہاد کی ایک شکل ہے، انسانی کو حاصل حقوق کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
ان عوامل کی بنیاد پر، یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں جہاد کی ضرورت کو ایک جامع اور وسیع تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اس کی تشریح مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے، لیکن بنیادی طور پر، یہ ضروری ہے کہ ہم اس ضرورت کو اپنے عہد کے چیلنجز کے مطابق سمجھیں اور اس کے مختلف طریقوں کو اپنائیں۔
جہاد کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کی رائے
اسلامی مکاتب فکر میں جہاد کی وضاحت اور اس کی نوعیت پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر، اسلامی فقہ میں جہاد کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: فرض عین اور فرض کفایہ۔ سنی مکاتب فکر کے اندر، عمومی طور پر جہاد کو فرض عین سمجھا جاتا ہے جب کہ کسی مخصوص حالت میں، جیسے کہ دشمنی کا سامنا، یہ فرض کفایہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سنی فکر کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ جہاد کا مقصد اسلامی سرزمین کی حفاظت اور مسلم امت کے دفاع میں شرکت کرنا ہے۔
شیعہ مکاتب فکر میں بھی جہاد کے بارے میں تھوڑی مختلف رائے موجود ہے۔ یہاں، جہاد کی نوعیت اور اس کے اہداف کو تاریخی اور روحانی تناظر میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ شیعہ علماء کے مطابق، جہاد کا تصور صرف میدان جنگ تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع طریقہ کار ہے جس کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنا بھی ہے۔ ان کے نزدیک، جہاد کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے یا جب لوگوں پر مظالم کیے جائیں۔
جماعت اسلامی جیسے دیگر مکاتب فکر بھی جہاد کو ایک اہم عمل تسلیم کرتے ہیں، مگر ان کا نقطہ نظر سنی اور شیعہ مکاتب فکر سے مختلف ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جہاد صرف عسکری شکل میں نہیں بلکہ معاشرتی اور سیاسی جہاد بھی موجود ہے، جس میں مسلمانوں کی رہنمائی اور اجتماعی بہتری کا پہلو شامل ہوتا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے چلن میں ایک انقلابی تصور لے کر آتی ہے، جہاں جہاد کو ایک معاشرتی تبدیلی کے لئے ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
آج کے مسلمانوں پر جہاد کی حیثیت
جہاد کا تصور اسلامی دنیا میں ایک قدیم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، جو ہر دور میں مختلف انداز میں متاثر ہوا ہے۔ آج کے مسلمان جہاد کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور انہیں اس کے معانی اور اطلاق کے بارے میں مختلف رہنمائیوں کا سامنا ہے۔ مختلف مسلم برادریوں کی جہاد کے حوالے سے اختلافات ان کی ثقافتی، معاشرتی، اور سیاسی پس منظر کے تجربات کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ طبقے جہاد کو ایک مذہبی فرض کے طور پر تصور کرتے ہیں، جہاں دفاعی جہاد کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ دیگر گروہ اسے وسیع تر معانی کے تحت انسانی ترقی اور انصاف کے قیام کے لئے ایک مشن کے طور پر لیتے ہیں۔
آج کے مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جہاد کو ایک عمل کے طور پر سمجھے جو روحانی اور عملی ہر دو پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ جہاد کی روایتی حیثیت کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں اور چیلنجز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً، مالی جہاد، تعلیمی جہاد، اور سماجی جہاد جیسے تصورات کو بھی اہمیت دی جا سکتی ہے، جو ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے اہم ہیں۔
یہ بھی اہم ہے کہ مسلمان مختلف ممالک اور ثقافتوں میں اپنے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاد کے مفہوم کی تفہیم کریں۔ جہاد کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اتحاد، علم، اور بصیرت کی ضرورت ہے۔ جہاد کا تصور معاشرتی باریکیوں کو سمجھنے اور اس کی بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی بنیاد فراہم کرتا ہے، تاکہ مسلمان اپنی زندگی میں اس کا صحیح استعمال کر سکیں۔ یہ روحانی شعور کے ساتھ علمی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے، جس کا مقصد معاشرے کی بہتری ہے۔
نتیجہ اور تجزیہ
آج کے دور میں جہاد کا تصور ایک پیچیدہ اور متنوع مسئلہ ہے۔ اس کی نوعیت، کیا یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ، اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر، جہاد کے مفہوم کی تفہیم اور اس کی تطبیق آج کے مسلمان کی ذمہ داری کا اہم حصہ ہے۔ جہاد صرف جنگ یا مسلح تصادم نہیں ہے، بلکہ اس میں خود کو بہتر بنانا، اخلاقی اور روحانی ترقی کرنا، اور معاشرتی برائیوں کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے۔ اس تناظر میں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جہاد کی مثبت صورت کو اپنائیں اور اس کے ذریعے معاشرتی وسائل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
یہ انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان جماعتیں مل کر ایک ایسا جہاد کا تصور پیش کریں جو امن، ہم آہنگی اور رواداری پر مبنی ہو۔ اس تصور میں دہشت گردی کے خلاف واضح موقف اپنانا شامل ہے، تاکہ مسلمان دنیا بھر میں مثبت تصویر پیش کر سکیں۔ ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ دین کی حقیقی روح انسانیت کی خدمت ہے، اور جہاد کو ایک ایسے طریقے کے طور پر دیکھنا چاہیے جو ہمیں معاشرتی مسائل کے حل کے لیے حوصلہ افزائی کرے۔
مسلمانوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ مل کر جہاد کے اصل معانی کی طرف اپنا دھیان مرکوز کریں۔ جہاد کی روح میں کمیونٹی کی بہتری، دیگر مذاہب کے ساتھ بہ احترامی روابط، اور ایک روحانی معاشرے کی تشکیل کی کوششیں شامل ہونی چاہئیں۔ اس طرح، ہم نہ صرف خود کو بلکہ پوری انسانیت کے مفاد میں کام کر سکیں گے۔
Khilafat
Join us in reviving the Khilafat.
rizwan@muznagroup.com
+917972998736
© 2025. All rights reserved.

