اٹھو اے پاس! بنو منتظر کس مسیحا کے؟

12/30/20251 min read

white concrete building
white concrete building

تاریخی پس منظر

تاریخ انسانی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں قوموں نے مشکل حالات میں حوصلہ اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر، ایوبیوں اور غزنوی سلاطین کے عہد میں ہماری قوم کی بہادری تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دو ادوار مختلف چیلنجز اور مواقع کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں ہماری قوم کے مسیحا بننے کے سفر کی داستانیں شامل ہیں۔

ایوبی سلطنت، بانی صلاح الدین ایوبی کے تحت، نہ صرف اپنی عسکری قوت بلکہ اپنی سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہوئی۔ انہوں نے نہ صرف اسلامی دشمنیوں کا مقابلہ کیا بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ایک معقول معاشرتی توازن بھی قائم کیا۔ صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں جس طرح اسلامی فوجوں نے صلیبی جنگوں میں شاندار فتح حاصل کی، وہ ہماری تاریخ میں ایک یادگار لمحہ ہے۔ اس عہد کی بہادری اور عزم نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور انہیں ایک نئے مسیحا کی طلب کا احساس دلایا۔

غزنوی سلاطین، جنہوں نے ہندوستان کے شمال میں عظیم فتوحات کیں، بھی ہماری قوم کی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے نئے ثقافتی اور تجارتی راستوں کو کھولا، جس سے نہ صرف فوجی طاقت میں بلکہ اقتصادی ترقی میں بھی اضافہ ہوا۔ غزنویوں کا دور اس بات کا ثبوت ہے کہ کیسے ایک قوم مشکل حالات میں اپنے مسیحا کی تلاش کرتی ہے اور ان کی قیادت میں نئی راہوں پر گامزن ہوتی ہے۔ غزنوی سلاطین نے اپنی مہارت اور جرات کے ذریعے مسلمانوں کو نئی امیدوں کا پیغام دیا اور ان کی قیادت میں عوام نے بہادری سے لڑائیوں میں حصہ لیا۔

یہ تمام مثالیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ تاریخ کی گہرائیوں میں ہماری قوم نے کب کب ہمت اور عزم کا ثبوت پیش کیا۔ ان تاریخی ادوار میں قوم کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی مثالیں ہمیں واضح کرتی ہیں کہ مسیحا کی طلب ایک لازمی جذبہ ہے، جو وقت کے ساتھ جوان ہوتا ہے۔

آج کا دور اور چیلنجز

آج کے دور میں مختلف اقسام کی مشکلات اور چیلنجز موجود ہیں جو انسانیت کو مسلسل پریشان کر رہے ہیں۔ معاشرتی ناانصافی، اقتصادی بدحالی، اور سیاسی بدعنوانی ان مسائل میں شامل ہیں جو نہ صرف انفرادی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ قوم کی مجموعی ترقی کو بھی رکاوٹ فراہم کر رہے ہیں۔ ان چیلنجز کی شدت نے ہمارے معاشرے میں ایک ایسی جذباتی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ایک مسیحا کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تاکہ ان مشکلات کا سامنا کیا جا سکے۔

معاشرتی ناانصافی کی مثالیں ہر جگہ موجود ہیں، چاہے وہ تعلیم کی عدم مساوات ہو یا صحت کی سہولیات کی غیرموجودگی۔ افراد کی معاشرتی حیثیت ان کی بنیادی حقوق تک رسائی میں رکاوٹ بنتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی مشکلات صرف اقتصادی میں متاثر ہوتی ہیں، بلکہ یہ افراد کے نفسیاتی اور معاشرتی استحکام پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے امید کی کرنیں مدھم پڑ جاتی ہیں۔

دوسری جانب، اقتصادی بدحالی ایک حقیقت ہے جس کا ساری دنیا کو سامنا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، اور اقتصادی عدم استحکام نے زندگی کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو دشوار بنا دیا ہے۔ ان حالات میں لوگوں کی حالت زار کا عکاسی کرتی ہے اور یہ ایک ایسا سوال بن جاتا ہے کہ کیا اس معاشرے میں واقعی کوئی مسیحا ہے جو ان چیلنجز سے نکلنے کا راستہ فراہم کرسکے۔

اس کے ساتھ ساتھ، سیاسی بدعنوانی کی بڑھتی ہوئی لہر نے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ جب لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی منتخب حکومتیں مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں، تو ان کے دلوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر، یہ مسائل ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم مسیحا کی تلاش کریں تاکہ ان مشکلات کا سامنا کیا جا سکے اور ایک روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھایا جا سکے۔

امید کی کرن: مسیحا کی ضرورت

دور حاضر میں جب دنیا بھر کے معاشرے مختلف مسائل کا شکار ہیں، ہمیں ایک مسیحا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس مسیحا کی خوبیاں، ان کی قیادت کی قابلیت اور قوم کے لئے ان کی ہمدردی عوام کے دلوں میں امید کی ایک کرن بکھیر سکتی ہیں۔ تاریخ میں کئی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب قوم میں مایوسی چھائی ہوتی ہے، تو ایسے قائد کا ظہور ہوتا ہے جو امید کی نوید بن کر سامنے آتا ہے۔

جیسے جیسے معاشرتی اور اقتصادی چیلنجز بڑھتے ہیں، قومیں قائدانہ صلاحیتوں کی طلب کرتی ہیں۔ ایک موثر رہنما نہ صرف مشکلات کو حل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے بلکہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کر کے انہیں جدوجہد کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ماضی میں جب بھی کسی ملک نے شدید مشکلات کا سامنا کیا، وہاں پر ایسے رہنماؤں نے عوام کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت کی بدولت قوموں نے نہ صرف بحران کو پار کیا بلکہ اپنی شناخت بھی بحال کی۔

عصر حاضر میں، قیادتی کمزوریوں کی مثالیں ایسی ہیں جن میں سیاسی رہنما عوام کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہیں یا ان کی ضروریات کو پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ صورتحال عوام میں بے چینی اور مایوسی بڑھاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ مایوس ہو کر تباہی کی سمت بڑھنے لگتے ہیں۔ ایک بہتر رہنما اس مایوسی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اس کے ذریعے قوم ایک نئی زندگی میں داخل ہو سکتی ہے۔ جب قیادت پر اعتماد ہو، تو عوام بھی اپنی حمایتی قوت سے اس مسیحا کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

قوم کی بیداری کی ضرورت

قوم کی بیداری اس کی ترقی کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ بیداری کا مطلب صرف معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ، عمل اور مستقبل کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرنا بھی ہے۔ جب قومیں بیدار ہوتی ہیں تو وہ آزادی، انصاف اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتی ہیں۔ بیداری کی ایک مثال تاریخ میں ان انقلابی تحریکوں میں ملتی ہے جہاں عوام نے اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نظام کے خلاف آواز بلند کی۔

ایک قوم کی صحیح بیداری اس کو اتحاد کی طاقت عطا کرتی ہے۔ بیداری کے نتیجے میں لوگ مشترکہ مقاصد کے لئے جڑتے ہیں، جس کا مقصد فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ جب لوگ باخبر ہوتے ہیں تو وہ اپنے حقوق کی طلب کر سکتے ہیں اور اپنے ملک کی تقدیر کو سنوارتے ہیں۔ یہ صرف تاریخ کی نہیں بلکہ موجودہ دور کی بھی ضرورت ہے کہ قومیں بیدار ہوں تاکہ وہ عالمی چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔

تاریخ میں کئی مواقع پر قوموں نے اپنی بیداری کا مظاہرہ کیا ہے، جیسے 20ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں مختلف ممالک میں آزادی کی تحریکیں۔ لوگوں نے اپنی بیداری کے ذریعے استبداد کے خلاف کام کیا اور آزادی حاصل کی۔ اسی طرح، بیداری سے لوگوں نے معاشرتی انصاف کی مانگ کی اور ترقی کے نئے راستے دریافت کیے۔ اس لئے، آج بھی کامیاب قومیں وہی ہیں جو اپنی بیداری کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے حقوق کا دفاع کرتی ہیں۔

نئے مسیحا کے اوصاف

نئے مسیحا کی خصوصیات کا تعین کرنا ایک اہم عمل ہے کیونکہ یہ انسانی معاشرے کی مستقبل کی رہنمائی کرتا ہے۔ ایک مثالی مسیحا کو نیک نیتی کی طاقت سے بھرپور ہونا چاہیے، کیونکہ یہ جذبہ اسے قوم کی بہترین خدمت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ نیک نیتی، جو دل کی سچائی اور مثبت ارادوں پر مبنی ہوتی ہے، اس کو اپنی قوم کی ضروریات کا صحیح اندازہ لگا کر اقدامات کرنے کی رہنمائی کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، بہادری ایک اور اہم وصف ہے جو نئے مسیحا میں ہونی چاہیے۔ کسی بھی ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنے کے لیے بہادری ضروری ہے۔ یہ بہادری انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اہم ہے، کیونکہ ایک مسیحا کو خود پر یقین کرتے ہوئے قوم کے سامنے کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ یہ خصوصیت نہ صرف مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے بلکہ لوگوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے کہ وہ اپنی اندر کی طاقت کو پہچانیں۔

ہمت، جو کہ عمل میں استقامت اور مصیبتوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت ہے، ایک مسیحا کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ شخص کسی بھی آنے والی مشکلات کے باوجود اپنے نصب العین کی جانب بڑھتا ہے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرتا ہے۔ قیادت کی خصوصیات کے ساتھ، ایک نئے مسیحا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ رہنما وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو مشکل وقت میں سنبھال سکے اور انہیں حوصلہ دے سکے۔ اس کی قیادت ماہرین کو مشغول کر کے اور ان کی رائے کو احترام دے کر قوم میں مثبت تبدیلی لانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

عملی اقدامات اور راہیں

مسلمان قوم کی قوت کو یکجا کرنے اور ایک مضبوط متوقع مسیحا کے سامنے آنے کی راہ میں عملی اقدامات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسے اقدام اٹھانا ضروری ہے جو ہمیں نہ صرف اجتماعیت کی طرف بلائیں بلکہ ہمیں اپنے مقاصد کی تکمیل کی جانب بھی رہنمائی فراہم کریں۔ ان اقدامات میں تعلیمی اصلاحات، اجتماعی کوششیں اور سیاسی آگاہی شامل ہیں۔

تعلیم کی سطح کو بلند کرنا ایک بنیادی اقدام ہے جو قوم کی تقدیر کو تبدیل کر سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بہتری اور ہر فرد کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہمیں ذہنی طور پر مستحکم اور خود بااختیار بناتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنی سوچ کی آزادی اور مسائل کے حل کی صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں، جو کہ ایک مستحکم قوم کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اجتماعی کوششوں کو فروغ دینا بھی ہماری سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ ہم سب کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہیے، جہاں ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کر سکے اور مل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک اتحاد کی مثالی تصویر پیش کریں، جس میں ہر فرد کا کردار اہم ہو۔

سیاسی آگاہی اور شمولیت بھی اس راہ کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ سیاست میں فعال شرکت سے نہ صرف ہم اپنی آواز کو بلند کرتے ہیں، بلکہ اپنے حقوق کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ تب ہم انفراسٹرکچر میں بہتری، اقتصادی استحکام اور عدل و انصاف کی بنیادی صورتیں حاصل کرتے ہیں۔

اس طرح، مختلف عملی اقدامات کے ذریعے ہم ایک مضبوط، متحد اور بااختیار قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں، جو ایک واقعی مسیحا کی آمد کی منتظر ہو۔

آخری سوچ: قوم کا عزم اور عمل

پاکستان کی قوم کا عزم اور عمل تیزی سے غیر یقینی کی حالت میں انتہائی ضروری بن چکا ہے۔ ملک کی تاریخ میں کئی مواقع آئے ہیں جب قوم نے عزم کے ساتھ اپنے مسائل کا سامنا کیا، لیکن آج کے عہد میں یہ عزم اور بھی زیادہ اہم ہے۔ ہماری کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنے کی کتنی مکمل تیاری رکھتے ہیں۔ اس وقت جب ہم ایک نئے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں، جس کی قیمتی قدر ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے میں موجود ہے، یہ قوم کی اجتماعی بصیرت اور عزم پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح سے اس راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ عزم کا مطلب محض انتظار کرنا نہیں ہے، بلکہ فعال عمل کرنا بھی ہے۔ قوم کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی آواز اٹھائیں، سوالات کریں اور سماجی و اقتصادی مسائل کے حل تلاش کریں۔ جب قوم خود کو بدلنا چاہے تو مسیحا ان کے درمیان آتا ہے۔ ایسے رسوم کی مثالیں ہمارے ماضی میں بھی موجود ہیں جب پاکستانی عوام نے اپنی پرجوش اور یکجہتی کے ذریعے حالات کو بہتر بنایا۔ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مسیحا کے آنے کا انتظار کرنے کے بجائے، اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو موثر انداز میں استعمال کریں۔ اس کے علاوہ، ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ملک کی بہتری کے لیے فرد واحد سے زیادہ ہماری اجتماعی کوششیں اہم ہیں۔ یہ بحث و مباحثہ ہمیں اس سوچ کی جانب متوجہ کرتا ہے کہ ایک نئی قیادت کا وجود صرف ایک مسیحا کے آنے کی صورت میں نہیں، بلکہ عوام کی عزم و عمل کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ ہمیں یکجا ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی تاکہ ہم ایک مضبوط اور بہتر قوم کی تشکیل کر سکیں۔