سوڈان

1) خلاصہ

سوڈان کی جدید تاریخ سیاسی، نسلی، علاقائی اور مذہبی تنازعات سے جڑی ہوئی ہے۔ مسلمانوں اور دیگر برادریوں پر جبر کئی صورتوں میں ہوا: نوآبادیاتی دور اور آزادی کے بعد عربی و اسلامی قوانین کے نفاذ، بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز (خاص طور پر 2003 کے بعد دارفور میں)، عمر البشیر کی آمریت کے تحت مخالفین کی گرفتاری و تشدد، اور 2023 سے فوج (SAF) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان جنگ جس نے لاکھوں بے گھر، قحط، اور وسیع پیمانے پر انسانی تباہی پیدا کی۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے مظالم کے کیسز کھولے، لیکن انصاف اور پائیدار تحفظ اب تک محدود رہا ہے۔

2) تاریخی پس منظر

پری-نوآبادیاتی و عثمانی-مصری دور (19ویں صدی تک):
سوڈان میں مختلف ریاستیں اور قبائل آباد تھے۔ اسلام رفتہ رفتہ دریائے نیل کے کناروں پر پھیلا، مگر شناختیں زیادہ مخلوط اور متنوع تھیں۔

مہدوی تحریک اور اینگلو-مصری دور (19ویں صدی کے آخر سے 1956):
مہدی ریاست ایک انقلابی اسلامی حکومت تھی۔ برطانوی-مصری نوآبادیاتی نظام نے شمالی عربی مسلم ایلیٹ کو فوقیت دی اور جنوب میں عیسائی و دیگر برادریوں کو الگ رکھا۔ یہی تقسیم بعد کے خانہ جنگیوں کی بنیاد بنی۔

آزادی کے بعد شمال-جنوب خانہ جنگی (1956–2005):
آزادی کے بعد مرکزی حکومت نے عربی و اسلامی پالیسیوں کو نافذ کیا جس سے غیر عرب و غیر مسلم جنوبی آبادی محروم ہوئی۔ نتیجتاً دو بڑی خانہ جنگیاں ہوئیں جو بالآخر 2011 میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی پر منتج ہوئیں۔

دارفور کا بحران (2003–):
2003 میں دارفور کے باغی گروہوں کو کچلنے کے لیے حکومت اور اس کے اتحادی جنجوید ملیشیاؤں نے بڑے پیمانے پر قتلِ عام، اجتماعی زیادتی، اور دیہات کی تباہی کی۔ لاکھوں مارے گئے اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ زیادہ تر متاثرہ لوگ مسلمان ہی تھے، لیکن انہیں نسلی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔

عمر البشیر کا دور (1989–2019):
البشیر نے اسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ آمریت قائم کی۔ اس کے دور میں سیاسی مخالفین، غیر عرب گروہ اور باغی خطے (جنوبی کورڈوفان، بلیو نیل، دارفور) شدید جبر کا شکار ہوئے۔ عالمی فوجداری عدالت نے البشیر پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے وارنٹ جاری کیے۔

2019–2021: عوامی تحریک اور ناکام جمہوری منتقلی:
عوامی احتجاج نے البشیر کو اقتدار سے ہٹا دیا، لیکن فوجی غلبہ برقرار رہا۔ 2019 کے کھرطوم قتل عام اور 2021 کی فوجی بغاوت نے جمہوری منتقلی کو ناکام کر دیا۔

2023–اب تک: فوج بمقابلہ RSF خانہ جنگی:
اپریل 2023 میں فوج اور RSF کے درمیان لڑائی شروع ہوئی جو پورے ملک میں پھیل گئی۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، قحط اور انسانی بحران پیدا ہوا، اور جنگی جرائم کے الزامات سامنے آئے۔

3) جبر کے طریقۂ کار

  1. ریاستی پالیسیوں کے ذریعے عربی و اسلامی جبر — غیر عرب و غیر مسلم آبادی کو زبان، زمین اور اقتدار میں محروم کیا گیا۔

  2. ملیشیاؤں کا استعمال — حکومت نے جنجوید اور RSF جیسے گروہوں کے ذریعے مظالم کروائے۔

  3. قانونی و سماجی پابندیاں — سیاسی مخالفین، انسانی حقوق کے کارکن، اور مذہبی اقلیتیں پابندیوں کا شکار رہیں۔

  4. نسلی و قبائلی حملے — زیادہ تر لڑائیاں نسلی بنیاد پر تھیں، لیکن مذہب کو بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

  5. انسانی امداد میں رکاوٹ — قحط، بیماری اور بے دخلی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

4) انسانی اثرات

  • دارفور: لاکھوں ہلاکتیں اور تین ملین سے زائد بے گھر۔

  • بین الاقوامی فوجداری عدالت: عمر البشیر پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات۔

  • موجودہ خانہ جنگی: 2023 سے اب تک 8 ملین سے زائد لوگ بے گھر، قحط اور بدترین انسانی بحران۔

5) عالمی ردِ عمل

  • ایمنسٹی، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی تحقیقات نے مظالم کی تصدیق کی۔

  • عالمی فوجداری عدالت نے کئی مقدمات کھولے۔

  • علاقائی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی کوششیں جاری ہیں لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔

6) موجودہ حالات (2025 تک)

  • SAF اور RSF کی لڑائی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔

  • انسانی بحران دنیا کے سب سے بڑے مہاجر بحران میں بدل چکا ہے۔

  • قحط اور قبیلائی تشدد بڑھ رہا ہے۔

7) مستقبل کے امکانات

(الف) تباہی کا تسلسل:
اگر لڑائی جاری رہی تو مزید قحط، بے گھر ہونے اور ریاستی اداروں کی تباہی ہوگی۔

(ب) مذاکرات اور نازک منتقلی:
علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ سے وقتی جنگ بندی اور سیاسی عبوری حکومت کا امکان ہے، مگر یہ بہت غیر یقینی ہے۔

(ج) ٹکڑوں میں بٹنا:
ملک مقامی جنگجو سرداروں اور ملیشیاؤں کے قبضے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔

8) حل کے اقدامات

  • فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کے محفوظ راستے۔

  • اسلحہ کی فراہمی اور غیر ملکی ملیشیاؤں پر پابندی۔

  • جنگی جرائم پر شفاف عدالتی کارروائیاں۔

  • علاقائی محرومی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم۔

  • قحط سے بچاؤ اور ترقیاتی سرمایہ کاری